خموش رہ کے بھی آنکھوں سے بات کرتا ہے
وہ چاندنی کے تکّلّم کو مات کرتا ہے
گلے مِلے نہ مِلے، کم مصافحہ بھی نہیں
معطّر اب بھی ہمیں اس کا ہاتھ کرتا ہے
نِبھا رہے ہیں کُچھ ایسے ہم اس سے یارانہ
نہیں ہے کم کسی شب زندہ دار سے وہ شخص
بسر جو آنکھوں میں فرقت کی رات کرتا ہے
روانگی کی اجازت عطا کرے بھی تو عشق
ہزار تُہمتیں عاشق کے ساتھ کرتا ہے
جو مہرباں ہو کسی پر کوئی حسِیں قاتل
کہاں پسند وہ زہرِ حیات کرتا ہے
بہت سے نام تھے اُس کی بہت سی غزلوں میں
پر اب قتیلؔ ذرا احتیاط کرتا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment