Saturday 25 January 2014

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
 یارو! سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
 ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
 جتنے صنم ہیں، ان کو خدا کہہ لیا کرو
یارو! یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
 آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
انسان کا اگر قد و قامت نہ بڑھ سکے
 تم اِس کو نقصِ آب و ہوا کہہ لیا کرو
اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجات ہے
 ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو
لے دے کے اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیلؔ
 جب دِل جلے تو اُس کو دِیا کہہ لیا کرو

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment