سینے میں حسرتوں کی جلن چاہتا نہیں
غم اب کوئی نیا، مرا من چاہتا نہیں
وہ میرے شہر دل میں اگر آ بسا تو کیا
وہ کون ہے جو اپنا وطن چاہتا نہیں
انسان تھا وہ غموں نے فرشتہ بنا دیا
کہتے ہیں اُس کے حال پہ روتے ہیں دیوتا
جس سانوری کو اُس کا سجن چاہتا نہیں
ہونا ہو جس کو دفن خود اپنے ہی صبر میں
وہ چہرہ آنسوؤں کا کفن چاہتا نہیں
اُس کو نہ پا کے جو اُسے رُسوا کریں قتیلؔ
میں ایسے ظالموں کا چلن چاہتا نہیں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment