دُعا
اے خُدا! اک ایسی تُو مجھے زندگانی دے
جو مِرے اِرادوں کو، عُمرِ جاودانی دے
بات ابھی یہ کل کی ہے، میں تھا حرف کا حاکم
کھو چُکا ہُوں میں جس کو، پھر وہ حُکمرانی دے
آج بھی کھڑا ہوں میں، بچپنے کی سرحد پر
چُپ ہوں ایک مدت سے، میری سوچ گونگی ہے
میری بے نوائی کو، تُو ہی کُچھ معانی دے
نفرتوں کا مارا ہوں، غم کا استعارہ ہوں
کم سے کم محبت کی، مجھ کو ترجُمانی دے
ہو مقابلہ میرا، دشمنوں سے کیوں آخر
بد زباں اگر وہ ہیں، مجھ کو خوش بیانی دے
میں قتیلؔ پہلے ہی، قحط کا ستایا ہوں
میرے کھیت پیاسے ہیں، کوئی ان کو پانی دے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment