Wednesday 29 January 2014

اجاڑ بستی کے باسیو ایک دوسرے سے پرے نہ رہنا

اجاڑ بستی کے باسیو! ایک دوسرے سے پرے نہ رہنا
ہوا درختوں سے کہہ گئی ہے، کسی بھی رُت میں ہَرے نہ رہنا
میں اپنے روٹھے ہوئے قبیلے کی سازشوں میں گھرا ہوا ہوں
تم اجنبی ہو تو میرے آنگن کی وحشتوں سے ڈرے نہ رہنا
پھٹے ہوئے بادبان کے پرزے بکھر بکھر کر یہ کہہ رہے تھے
شکستہ کشتی کے ناخداؤ! ہواؤں کے آسرے نہ رہنا
یقین ہے اب کے وصال موسم کے بانجھ پن کی دلیل ہو گا
تمہاری آنکھوں کی سِیپیوں کا یہ موتیوں سے بھرے نہ رہنا
سخنورو! اس منافقت سے تو خودکشی کا شعار سیکھو
زبان کا زخم زخم ہونا، حرُوف کا کُھردرے نہ رہنا
دلوں کی بستی کے لوگ محسنؔ اُجڑ اُجڑ کے یہ کہہ گئے ہیں
جہاں وفاؤں میں کھوٹ دیکھو، وہاں سخن میں کَھرے نہ رہنا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment