شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے
کیوں نہ ساغر سے کوئی چاند ابھارا جائے
راس آیا نہیں تسکین کا ساحل کوئی
پھر مجھے پیاس کے دریا میں اتارا جائے
مہربان تیری نظر، تیری ادائیں قاتل
مجھ کو ڈر ہے تیرے وعدے پہ بھروسا کر کے
مفت میں یہ دلِ خوش فہم نہ مارا جائے
جس کے دَم سے تیرے دن رات درخشاں تھے قتیلؔ
کیسے اب اس کے بِنا وقت گزارا جائے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment