Saturday 25 January 2014

شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے

شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے
 کیوں نہ ساغر سے کوئی چاند ابھارا جائے
راس آیا نہیں تسکین کا ساحل کوئی
 پھر مجھے پیاس کے دریا میں اتارا جائے
مہربان تیری نظر، تیری ادائیں قاتل
 تجھ کو کس نام سے اے دوست پکارا جائے
مجھ کو ڈر ہے تیرے وعدے پہ بھروسا کر کے
 مفت میں یہ دلِ خوش فہم نہ مارا جائے
جس کے دَم سے تیرے دن رات درخشاں تھے قتیلؔ
 کیسے اب اس کے بِنا وقت گزارا جائے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment