Tuesday 28 January 2014

اس کو اپنے گھر کی سناٹے سے کتنا پیار تھا

اس کو اپنے گھر کی سنّاٹے سے کتنا پیار تھا
وہ بظاہر کچھ نہ لگتا تھا، مگر فنکار تھا
تجھ سے بچھڑا ہوں تو دیکھے ہیں کئی چہرے مگر
خواہشوں کی بھیڑ میں بھی تُو میرا معیار تھا
اس کی خواہش تھی تو پی لینا تھا جام زہر بھی
دیکھنا بے سُود تھا پھر سوچنا بے کار تھا
میرا سر نوک سناں پر بھی رہے سب سے بلند
میں بنی آدمؑ کی عظمت کا علمبردار تھا
میں سفر آغاز کیا کرتا اَنا کے دشت میں
میرا سایہ راہ کی سب سے بڑی دیوار تھا
شہر بھر میں ایک ہی دشمن نظر آیا مجھے
وہ ستمگر بھی میرا صدیوں پرانا یار تھا
ہم نے محسنؔ کی غزل پڑھ کر ہی دل بہلا لیا
اس سے کیا ملتے ہو وہ اپنے آپ سے بیزار تھا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment