Friday 24 January 2014

اندھیری رات تھی گو چاند بھی تھا اور تارے بھی

اندھیری رات تھی گو چاند بھی تھا اور تارے بھی
مِری آنکھوں نے دیکھے ہیں خمارؔ ایسے نظارے بھی
کوئی عیش و مسرّت کے طلبگاروں سے کہہ دیتا
کہ گزرے تھے انہی راہوں سے پہلے غم کے مارے بھی
محبت سے الگ رہنا ہی بہتر حضرتِ ناصح
مگر اکثر سفینے ڈوب جاتے ہیں کنارے بھی
دل و جاں تجھ پہ صدقے میرے آنسو پونچھنے والے
مگر آنکھوں کو پھونک دے رہے کچھ شرارے بھی
سمجھ میں کاش اربابِ محبت کی یہ آ جائے
کہ دل کے ٹوٹتے ہی ٹوٹ جاتے ہیں سہارے بھی
وہ کیوں جانیں بھلا جن کے لیے فردوس ہے دنیا
کہ اس فردوس میں آباد ہیں کچھ غم کے مارے بھی
ارے او جانے والے لُوٹ کر رونق مِرے گھر کی
لیے جا کاش اپنے ساتھ یہ سونے نظارے بھی
خمارؔ اب یہ زمانہ شوق سے ہم پر ہنسے، لیکن
محبت کو خدا بخشے کبھی تھے دن ہمارے بھی

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment