لوگوں کے لیے صاحب کردار بھی میں تھا
خود اپنی نگاہوں میں گنہگار بھی میں تھا
کیوں اب میرے منصب کی سلامی کو کھڑے ہو
یارو کبھی رُسوا سرِ بازار بھی میں تھا
میں خود ہی چُھپا تھا کفِ قاتل کی شِکن میں
چھینٹے ہیں جہاں اب میرے معصوم لہو کے
اس فرق فلک ناز کی دستار بھی میں تھا
میری ہی صدا لوٹ کے آئی ہے مجھی تک
شاید حدِ افلاک کے اس پار بھی میں تھا
منزل پہ جو پہنچا ہوں تو معلوم ہوا ہے
خود اپنے لیے راہ کی دیوار بھی میں تھا
اب میرے تعارف سے گریزاں ہے تو لیکن
کل تک تیری پہچان کا معیار بھی میں تھا
دیکھا تو میں افشا تھا ہر اک ذہن پہ محسنؔ
سوچا تو پس پردہ اسرار بھی میں تھا
محسنؔ نقوی
No comments:
Post a Comment