Wednesday 29 January 2014

لوگوں کے لیے صاحب کردار بھی میں تھا

لوگوں کے لیے صاحب کردار بھی میں تھا
خود اپنی نگاہوں میں گنہگار بھی میں تھا
کیوں اب میرے منصب کی سلامی کو کھڑے ہو
یارو کبھی رُسوا سرِ بازار بھی میں تھا
میں خود ہی چُھپا تھا کفِ قاتل کی شِکن میں
مقتول کی ٹُوٹی ہوئی تلوار بھی میں تھا
چھینٹے ہیں جہاں اب میرے معصوم لہو کے
اس فرق فلک ناز کی دستار بھی میں تھا
میری ہی صدا لوٹ کے آئی ہے مجھی تک
شاید حدِ افلاک کے اس پار بھی میں تھا
منزل پہ جو پہنچا ہوں تو معلوم ہوا ہے
خود اپنے لیے راہ کی دیوار بھی میں تھا
اب میرے تعارف سے گریزاں ہے تو لیکن
کل تک تیری پہچان کا معیار بھی میں تھا
دیکھا تو میں افشا تھا ہر اک ذہن پہ محسنؔ
سوچا تو پس پردہ اسرار بھی میں تھا

محسنؔ نقوی

No comments:

Post a Comment