Tuesday 28 January 2014

کب تلک شب کے اندھیرے میں سحر کو ترسے

کب تلک شب کے اندھیرے میں سحر کو ترسے
وہ مسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے
آنکھ ٹھہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ رہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے
مجھ کو اُس قحط کے موسم سے بچا ربِّ سخن
جب کوئی اہلِ ہُنر، عرضِ ہُنر کو ترسے
اب کے اِس طور مسلّط ہو اندھیرا ہر سُو
ہجر کی رات میرے دیدۂ تر کو ترسے
عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
اُس کو پا کر بھی اُسے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
جیسے پانی میں کوئی سِیپ گُہر کو ترسے
ناشناسائی کے موسم کا اثر تو دیکھو
آئینہ خال و خدِ آئینہ گر کو ترسے
ایک دنیا ہے کہ بستی ہے تیری آنکھوں میں
وہ تو ہم تھی جو تیری ایک نظر کو ترسے
شورِ صرصر میں جو سَرسبز رہی ہے محسنؔ
موسمِ گُل میں وہی شاخ ثمر کو ترسے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment