کب تلک شب کے اندھیرے میں سحر کو ترسے
وہ مسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے
آنکھ ٹھہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ رہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے
مجھ کو اُس قحط کے موسم سے بچا ربِّ سخن
اب کے اِس طور مسلّط ہو اندھیرا ہر سُو
ہجر کی رات میرے دیدۂ تر کو ترسے
عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
اُس کو پا کر بھی اُسے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
جیسے پانی میں کوئی سِیپ گُہر کو ترسے
ناشناسائی کے موسم کا اثر تو دیکھو
آئینہ خال و خدِ آئینہ گر کو ترسے
ایک دنیا ہے کہ بستی ہے تیری آنکھوں میں
وہ تو ہم تھی جو تیری ایک نظر کو ترسے
شورِ صرصر میں جو سَرسبز رہی ہے محسنؔ
موسمِ گُل میں وہی شاخ ثمر کو ترسے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment