بے کیف جوانی میں کیا کیا سامان خریدے جاتے ہیں
آہوں کے بگولے، اشکوں کے طوفان خریدے جاتے ہیں
دل سے تو کوئی کیا چاہے گا اس اُجڑے ہوئے کاشانے کو
مجبوری کا یہ عالم ہے، مہمان خریدے جاتے ہیں
ہر چیز کا سودا چُکتا ہے دن رات بھرے بازاروں میں
اِک بات بھی ہوتی تُل جاتے ہم سونے کی میزانوں میں
افسوس یہاں دو کوڑی میں انسان خریدے جاتے ہیں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment