Saturday 25 January 2014

نیند کے گہرے سمندر میں جہاں غرقاب تھا

نیند کے گہرے سمندر میں جہاں غرقاب تھا
 ایک میں ساحل پہ تھا، سو ماہئ بے آب تھا
 کیا بتاؤں دوستو! اُن کے خیال آنے کا حال
 جھلملاتی جھیل میں لرزاں کوئی مہتاب تھا
اُس نے جھٹکا اپنی بھیگی زُلف کو اور اُس کے بعد
 دُور تک پھیلا ہوا سایوں کا اِک سیلاب تھا
 سوچتا رہتا ہوں آنکھیں بند کرکے رات دن
 میں نے دیکھا جو کُھلی آنکھوں وہ کیسا خواب تھا
 عمر گزری ساحلوں پر سیپیاں چُنتے ہوئے
 جس میں گوہر بھی ہو کوئی، وہ صدف نایاب تھا
 دُور سے ہوتا رہا جس پر ستارے کا گُماں
 جب قریب آیا تو وہ بھی کرمکِ شبِ تاب تھا
 برسرِ محفل سبھی نے پا لیا اعزازِ جام
 ایک دیوانہ تِرا ناواقفِ آداب تھا
 میری کشتی کے لئے آغوش پھیلائے ہوئے
 یا خدا کی ذات تھی یا حلقۂ گرداب تھا
 خواب کی مانند مجھ کو یاد آتا ہے قتیلؔ
 دل کا یہ صحرا کبھی اِک قریۂ شاداب تھا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment