Friday, 24 January 2014

آج ہم ناگہاں کسی سے مِلے

آج ہم ناگہاں کسی سے مِلے
مدتوں بعد زندگی سے مِلے
شمع کیا، چاند کیا، ستارے کیا
سلسلے سب کے تیرگی سے مِلے
پھول کر لیں نِباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے مِلے
اُن اندھیروں سے کوئی کیسے بچے
وہ اندھیرے جو روشنی سے مِلے
خود سے مِلنے کو عمر بھر ترسے
یوں تو مِلنے کو ہم سبھی سے مِلے
غم بھی ہم سے بڑی خوشی سے مِلا
ہم بھی غم سے بڑی خوشی سے مِلے
زندگی کے سلوک کیا کہیے
جس کو مرنا ہو زندگی سے مِلے
ہم پہ گزرا ہے وہ بھی وقت خمارؔ
جب شناسا بھی اجنبی سے مِلے

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment