یہ خوف دل میں، نگاہ میں اضطراب کیوں ہے
طلوع محشر سے پیشتر یہ عذاب کیوں ہے
کبھی تو بدلے یہ ماتمی رُت اداسیوں کی
میری نگاہوں میں ایک سا شہرِ خواب کیوں ہے
کبھی کبھی تیری بے نیازی سے خوف کھا کے
فلک پہ بکھری سیاہیاں اب بھی سوچتی ہیں
زمیں کے سر پہ یہ چادرِ آفتاب کیوں ہے
ترس گئے میرے آئینے اس کے خال و خد کو
وہ آدمی ہے تو اس قدر لاجواب کیوں ہے
اسے گنوا کر پھر اس کو پانے کا شوق کیسا
گناہ کر کے بھی انتظارِ ثواب کیوں ہے
تیرے لیے اس کی رحمتِ بے کنار کیسی
میرے لیے اس کی رنجش بے حساب کیوں ہے
اسے تو محسنؔ بلا کی نفرت تھی شاعروں سے
پھر اس کے ہاتھوں میں شاعری کی کتاب کیوں ہے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment