تمہیں جو میرے غمِ دل سے آگہی ہو جائے
جگر میں پُھول کِھلیں، آنکھ شبنمی ہو جائے
اَجل بھی اُس کی بلندی کو چُھو نہیں سکتی
وہ زندگی جِسے احساسِ زندگی ہو جائے
یہی ہے دل کی ہلاکت، یہی ہے عشق کی موت
زمانہ دوست ہے، کِس کِس کو یاد رکھو گے
خدا کرے کہ تمہیں مجھ سے دُشمنی ہو جائے
سیاہ خانۂ دل میں ہے ظُلمتوں کا ہجُوم
چراغِ شوق جلاؤ کہ روشنی ہو جائے
طلوعِ صبح پہ ہوتی ہے اور بھی نَمناک
وہ آنکھ جس کی ستاروں سے دوستی ہو جائے
اجل کی گود میں قابلؔ ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں کہ مِری موت زندگی ہو جائے
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment