Friday 24 January 2014

واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے

واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے
اک اشک نکل آیا یے یوں دیدۂ تر سے
جس طرح جنازہ کوئی نکلے بھرے گھر سے
رگ رگ میں عوض خون مے دوڑ رہی ہے
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مخمور نظر سے
اس طرح بسر ہوتے ہیں دن رات ہمارے
اک تازہ بلا آئی جو اک ٹل گئی سر سے
صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مِرے اجڑے ہوئے گھر سے
مل جائیں ابد سے مِرے اللہ یہ لمحے
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مانوس نظر سے
جائیں تو کہاں جائیں کھڑے سوچ رہے ہیں
اٹھنے کو خمارؔ اٹھ تو گئے ہم کسی در دے

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment