شوقِ جلوہ ہے، مگر ذوقِ نظر نابینا ہے
آئینے کے سامنے رکھا ہوا آئینہ ہے
صِرف اِک نظارہ دے کر لے گیا آنکھیں کوئی
زندگی نے جو دِیا ا س سے زیادہ چِھینا ہے
پیاس یوں بھڑکی مری، احساس ایندھن بن گیا
ان دنوں میں صبر کی دولت سے مالا مال ہوں
یہ مرا حق تھا اسے زخموں سے میں نے چھینا ہے
دُشمنوں کے ہاتھوں آخر بِک گیا وہ بھی قتیلؔ
اِک چُھپا رستم، جو میرا ہمدمِ دیرینہ ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment