Saturday, 25 January 2014

وہ کھل کر اب کوئی جلوہ دکھانا چاہتا ہے

وہ کُھل کر اب کوئی جلوہ دِکھانا چاہتا ہے
 وہ کہتا ہے ”اُسے سارا زمانہ چاہتا ہے“
خُدا شاہد ہے بُری نِیّت نہیں رکھتا وہ قاتل
 تماشا رقصِ بسمل کا دِکھانا چاہتا ہے
وہ زخم آئیں گے جن کے ساتھ اِک مرہم بھی ہو گا
 نئے تیروں سے وہ ترکش سجانا چاہتا ہے
 یہ کہہ کر اِک نیا پنجرہ بنا دیتا ہے صیاد
 پرندہ خود، قفس کا آب و دانہ چاہتا ہے
 قتیلؔ اُس کو ہماری بے گُناہی سے غرض کیا
 سزا دینے کو وہ کوئی بہانہ چاہتا ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment