وہ کُھل کر اب کوئی جلوہ دِکھانا چاہتا ہے
وہ کہتا ہے ”اُسے سارا زمانہ چاہتا ہے“
خُدا شاہد ہے بُری نِیّت نہیں رکھتا وہ قاتل
تماشا رقصِ بسمل کا دِکھانا چاہتا ہے
وہ زخم آئیں گے جن کے ساتھ اِک مرہم بھی ہو گا
یہ کہہ کر اِک نیا پنجرہ بنا دیتا ہے صیاد
پرندہ خود، قفس کا آب و دانہ چاہتا ہے
قتیلؔ اُس کو ہماری بے گُناہی سے غرض کیا
سزا دینے کو وہ کوئی بہانہ چاہتا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment