Wednesday, 1 January 2014

آبرو ہے قرینے والوں کی

آبرو ہے قرینے والوں کی 
 اپنے لب آپ سینے والوں کی 
 مرنے والوں کو رو رہا ہے کیا 
 بے کسی دیکھ جینے والوں کی 
بڑھ کے ساغر کو توڑ دے کوئی 
 روح تشنہ ہے پینے والوں کی 
 ہم تو پروردۂ تلاطم ہیں 
 مشکلیں ہیں سفینے والوں کی 
 دل ہی ٹوٹیں گے جام کے بدلے 
 انجمن ہے قرینے والوں کی 
 زخم دل بھی ہنسی اڑاتے ہیں 
 دامن چاک سینے والوں کی 
 ہم بہت یاد آئے ساقی کو 
 گفتگو تھی نہ پینے والوں کی 
 سہل کر دی ہیں مشکلیں کتنی 
 مرنے والوں نے جینے والوں کی 

 قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment