آبرو ہے قرینے والوں کی
اپنے لب آپ سینے والوں کی
مرنے والوں کو رو رہا ہے کیا
بے کسی دیکھ جینے والوں کی
بڑھ کے ساغر کو توڑ دے کوئی
ہم تو پروردۂ تلاطم ہیں
مشکلیں ہیں سفینے والوں کی
دل ہی ٹوٹیں گے جام کے بدلے
انجمن ہے قرینے والوں کی
زخم دل بھی ہنسی اڑاتے ہیں
دامن چاک سینے والوں کی
ہم بہت یاد آئے ساقی کو
گفتگو تھی نہ پینے والوں کی
سہل کر دی ہیں مشکلیں کتنی
مرنے والوں نے جینے والوں کی
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment