Wednesday, 1 January 2014

جب کبھی آنکھ ملاتے ہیں وہ دیوانے سے

جب کبھی آنکھ ملاتے ہیں وہ دیوانے سے 
 روئے تاباں پہ ابھر آتے ہیں ویرانے سے 
 لذتِ گردشِ ایام وہی جانتے ہیں 
 جو کسی بات پہ اُٹھ آئے ہیں مے خانے سے 
تم بھی ایسے میں اُلٹ دو رخِ تاباں سے نقاب 
 زندگی جھانک رہی ہے مرے پیمانے سے 
 لوگ لے آتے ہیں کعبہ سے ہزاروں تحفے 
 ہم سے اک بت بھی نہ لایا گیا بت خانے سے 
 سوچتا ہوں تو وہ جاں سے بھی زیادہ ہیں عزیز 
 دیکھتا ہوں تو نظر آتے ہیں بے گانے سے 
 ظلمت دیر و حرم سے کوئی مایوس نہ ہو 
 اک نئی صبح ابھرنے کو ہے مے خانے سے 
 تیری ایک سادہ نظر کا ہے کرشمہ ساقی 
 ان گنت رنگ جھلکنے لگے پیمانے سے 
 ؔپھول تو پھول ہیں اس دور ہوس میں قابل 
 لوگ کانٹوں کو بھی چن لیتے ہیں ویرانے سے 

 قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment