Sunday 13 October 2013

شام سے ہجر کے آزار میں کھو جاتے ہیں

شام سے ہجر کے آزار میں کھو جاتے ہیں
دل کو پاتے ہیں تو دِلدار میں کھو جاتے ہیں
نام ہی گرمئ بازار کا بدنام ہوا
خواب تو چشمِ خریدار میں کھو جاتے ہیں
ہم سے اس خوگرِ اقرار کی حالت مت پوچھ
ہم تو خود لذّت انکار میں کھو جاتے ہیں
کوئی پائے تو بتائے کہ حقیقت کیا ہے
ہوش کیوں حُسن کی سرکار میں کھو جاتے ہیں
حاصلِ کارِ زیاں سب پہ عیاں ہے پھر بھی
لوگ خود کو یہاں بے کار میں کھو جاتے ہیں
منزلیں پائے ہوئے ہم کو بتاتے ہی رہے
راہرو سایۂ دیوار میں کھو جاتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دونوں کا نشاں تک نہ ملے
آؤ ہم وصل کے اسرار میں کھو جاتے ہیں
راستہ حیرتِ دیدار کا تکتے تکتے
آئینے حسرتِ دیدار میں کھو جاتے ھیں

شہزاد نیر 

No comments:

Post a Comment