Sunday, 13 October 2013

موجۂ سیلاب غم عزم جوانی لے گیا

موجۂ سیلابِ غم عزمِ جوانی لے گیا
آنکھ میں جو خواب تھے نمکین پانی لے گیا
خود فراموشی کا ریلا پہلے بھی آیا مگر
اب کے جو آیا تو سب یادیں پرانی لے گیا
تیرے میرے درمیاں جو مدّتوں حائل رہی
ایک ہی آنسو بہا کر بدگمانی لے گیا
صورتِ ہمدرد جو آیا کہانی کار تھا
چند آنسو دے کے وہ میری کہانی لے گیا
میری چوکھٹ پر سمندر آ گیا تھا ایک دن
میرے دل سے مانگ کر وہ بے کرانی لے گیا

شہزاد نیر 

No comments:

Post a Comment