اسی قبا میں بسر اک زمانہ کر دیا ہے
بدن کو ہم نے پہن کر پرانا کر دیا ہے
یہ دشتِ دل ہے، یہاں کوئی بھی نہیں آتا
سو ہم نے دفن یہیں سب خزانہ کر دیا ہے
افق کے پار یہ سورج سے جا ملے شاید
جو ایک عُمر سے اک دوسرے کی زد پر تھے
انہیں مفاد نے شانہ بہ شانہ کر دیا ہے
جہانِ رزق کے ان پِستہ قامتوں نے میاں
مزاجِ عشق کو بھی عامیانہ کر دیا ہے
شکار اور شکاری بدل گئے ہیں سعودؔ
سَبُکتگیں کو ہرن نے نشانہ کر دیا ہے
سعود عثمانی
No comments:
Post a Comment