Thursday, 31 October 2013

اسی قبا میں بسر اک زمانہ کر دیا ہے

اسی قبا میں بسر اک زمانہ کر دیا ہے
بدن کو ہم نے پہن کر پرانا کر دیا ہے
یہ دشتِ دل ہے، یہاں کوئی بھی نہیں آتا
سو ہم نے دفن یہیں سب خزانہ کر دیا ہے
افق کے پار یہ سورج سے جا ملے شاید
چراغ آبِ رواں پر روانہ کر دیا ہے
جو ایک عُمر سے اک دوسرے کی زد پر تھے
انہیں مفاد نے شانہ بہ شانہ کر دیا ہے
جہانِ رزق کے ان پِستہ قامتوں نے میاں
مزاجِ عشق کو بھی عامیانہ کر دیا ہے
شکار اور شکاری بدل گئے ہیں سعودؔ
سَبُکتگیں کو ہرن نے نشانہ کر دیا ہے

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment