Sunday, 13 October 2013

جبیں پہ رکھے بصد شان لے کے چلتے ہیں

جبیں پہ رکھے بصد شان لے کے چلتے ہیں
عجیب لوگ ہیں بہتان لے کے چلتے ہیں
متاعِ عشق جہان والے کب کے چھوڑ گئے
ہم اہلِ درد یہ سامان لے کے چلتے ہیں
ہمیں تُم عدل کا مفہوم کیا بتاؤ گے
ہم اپنے دوش پہ میزان لے کے چلتے ہیں
یہ میرے لوگ، یہ سہمے، ستائے، ہارے لوگ
گھروں سے جان کا تاوان لے کے چلتے ہیں
ہم اپنی آنکھ میں سمٹے ہوئے تماشائی
لبوں کی اوٹ میں طوفان لے کے چلتے ہیں
جسے بُلاؤ وہ بارود بن کے پھٹتا ہے
یہ لوگ کون سا ہیجان لے کے چلتے ہیں 

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment