جبیں پہ رکھے بصد شان لے کے چلتے ہیں
عجیب لوگ ہیں بہتان لے کے چلتے ہیں
متاعِ عشق جہان والے کب کے چھوڑ گئے
ہم اہلِ درد یہ سامان لے کے چلتے ہیں
ہمیں تُم عدل کا مفہوم کیا بتاؤ گے
ہم اپنے دوش پہ میزان لے کے چلتے ہیں
ہم اپنی آنکھ میں سمٹے ہوئے تماشائی
لبوں کی اوٹ میں طوفان لے کے چلتے ہیں
جسے بُلاؤ وہ بارود بن کے پھٹتا ہے
یہ لوگ کون سا ہیجان لے کے چلتے ہیں
عجیب لوگ ہیں بہتان لے کے چلتے ہیں
متاعِ عشق جہان والے کب کے چھوڑ گئے
ہم اہلِ درد یہ سامان لے کے چلتے ہیں
ہمیں تُم عدل کا مفہوم کیا بتاؤ گے
ہم اپنے دوش پہ میزان لے کے چلتے ہیں
یہ میرے لوگ، یہ سہمے، ستائے، ہارے لوگ
گھروں سے جان کا تاوان لے کے چلتے ہیںہم اپنی آنکھ میں سمٹے ہوئے تماشائی
لبوں کی اوٹ میں طوفان لے کے چلتے ہیں
جسے بُلاؤ وہ بارود بن کے پھٹتا ہے
یہ لوگ کون سا ہیجان لے کے چلتے ہیں
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment