Saturday 26 October 2013

موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی

مؤجد کا حُسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی
ماں کا شباب، کثرتِ اولاد کھا گئی
دیہات کے وجود کو قصبہ نِگل گیا
قصبے کا جسم شہر کی بُنیاد کھا گئی
اک عمر جس کے واسطے دفتر کئے سیاہ
اس مرکزی خیال کو روداد کھا گئی
تیری تو آن بڑھ گئی مجھ کو نواز کر
لیکن مِرا وقار یہ امداد کھا گئی
کاریگروں نے بابوؤں کو زیر کر لیا
محنت کی آنچ کاغذی اسناد کھا گئی
شیریں کے تن کو چاٹ گئی خُسروی ہوس
نہرِ سپید، قامتِ فرہاد کھا گئی
قد تو پھلوں کا بڑھ گیا دورِ جدید میں
سپرا، مگر اثر کو نئی کھاد کھا گئی

 تنویر سپرا

No comments:

Post a Comment