Saturday 26 October 2013

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے

طبیعت ان دنوں بے گانۂ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ، اے حُسنِ دو عالم! ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے شاہد و ساقی مگر دل بُجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگر! یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment