Thursday 31 October 2013

وہ حور نہ تھی بصرہ و بغداد سے آئی

وہ حور نہ تھی بصرہ و بغداد سے آئی
اِک ہجر زدہ یاد تھی، جو یاد سے آئی
یہ شور نہیں نوحہ و ماتم کی صدا ہے
لگتا ہے ہوا قریۂ برباد سے آئی
بھیگی ہوئی آنکھیں ہیں درود اس کے لبوں پر
لگتا ہے ابھی اٹھ کے وہ میلاد سے آئی
آیا ہے سلیقہ بھی مجھے بے ہنری سے
شعروں پہ مجھے داد بھی بیداد سے آئی
اشیا کا تحرک کسی حرکت کے سبب ہے
افتاد ہمیشہ کسی افتاد سے آئی

توقیر عباس

No comments:

Post a Comment