دکھوں کا دشت آنکھوں کا سمندر چھوڑ آیا ہوں
جو گھر میں لا نہ سکا تھا وہ باہر چھوڑ آیا ہوں
تم اگلی بارشوں کے بعد جا کر دیکھنا پیارے
تمہارا نام دیواروں پہ لکھ کر چھوڑ آیا ہوں
محبت کی ہے اس گھر میں، رہائش تو نہیں کی ہے
تیری بانہوں میں آ کر بھی یہی محسوس ہوتا ہے
کہ خود کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا ہوں
ابھی کچھ دیر میں پھیلے گی خوشبو ساری بستی میں
وہاں کے اک دریچے میں گلِ تر چھوڑ آیا ہوں
خدا ناخواستہ میں اگر بن باس لوں تابشؔ
وہاں کس کو بتاؤں گا بھرا گھر چھوڑ آیا ہوں
عباس تابش
No comments:
Post a Comment