Wednesday 30 October 2013

دکھوں کا دشت آنکھوں کا سمندر چھوڑ آیا ہوں

دکھوں کا دشت آنکھوں کا سمندر چھوڑ آیا ہوں
جو گھر میں لا نہ سکا تھا وہ باہر چھوڑ آیا ہوں
تم اگلی بارشوں کے بعد جا کر دیکھنا پیارے
تمہارا نام دیواروں پہ لکھ کر چھوڑ آیا ہوں
محبت کی ہے اس گھر میں، رہائش تو نہیں کی ہے
ابھی تو صرف دروازے پہ بستر چھوڑ آیا ہوں
تیری بانہوں میں آ کر بھی یہی محسوس ہوتا ہے
کہ خود کو وقت کے رحم و کرم  پر چھوڑ آیا ہوں
ابھی کچھ دیر میں پھیلے گی خوشبو ساری بستی میں
وہاں کے اک دریچے میں گلِ تر چھوڑ آیا ہوں
خدا ناخواستہ میں اگر بن باس لوں تابشؔ
وہاں کس کو بتاؤں گا بھرا گھر چھوڑ آیا ہوں

عباس تابش

No comments:

Post a Comment