لہُو کی موج سفینوں کے سنگ لے آئے
بنامِ امن، وہ ساحل پہ جنگ لے آئے
جنہیں کتاب، دلائل، فنون بھیجے تھے
ہمارے واسطے تیر و تفنگ لے آئے
جب آنے والا ہی دشنہ بدست آیا ہو
تو کوئی کیسے مقابل میں چنگ لے آئے
اسے ترقی و تہذیب کس طرح مانوں
جو اپنے ساتھ سپاہ و خدنگ لے آئے
لباسِ آہنِ برتر وہ لے کے آیا تھا
فنائے جسم کی گدڑی ملنگ لے آئے
فسانہ صاف حقیت دِکھائی دینے لگا
وہ گُفتگو میں انوکھا ہی ڈھنگ لے آئے
مجھے تو رُوح کی مستی میں مست ہونا تھا
مگر وہ لوگ بدن کی ترنگ لے آئے
کوئی بھی سمت ہو، کومل سُروں میں بات کرے
ہماری سمت وہ تیور کا انگ لے آئے
ابھی گُلاب تو باقی ہیں میرے دامن میں
مِرے عدُو سے کہو، اور سنگ لے آئے
اُفق پہ خُون کے بدلے دھنک دکھائی دے
خُدا کرے کہ مِری بات رنگ لے آئے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment