چلو، وہ کُہنہ روایت خرید لاتے ہیں
بنامِ عشق، اذیّت خرید لاتے ہیں
یہ جنس بِکتی ہے بازارِ آدمیّت میں
امیر لوگ محبت خرید لاتے ہیں
فقیہِ شہر عقیدے فروخت کرتا ہے
جو ایک سال میں کرتے ہیں تین تین عُمرے
وہ رَب کے گھر سے عبادت خرید لاتے ہیں
جو روزِ حشر، ہمیں کام دے خُدا کے حضور
کسی قُطب سے ولایت خرید لاتے ہیں
ہے طالبان کا شعبہ یہ جنت الفردوس
اُنہی سے ہم بھی شہادت خرید لاتے ہیں
قصیدے لِکھ کے سیاسی نقاب پوشوں کے
صحافی مرد، وزارت خرید لاتے ہیں
ہر ایک شہر میں رَب کی دُکان ہے مسعودؔ
شریف لوگ شریعت خرید لاتے ہیں
مسعود منور
No comments:
Post a Comment