اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانۂ گل، قیدیٔ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
بیاں جب کلیم اپنی حالت کرے ہے
غزل کیا پڑھے ہے قیامت کرے ہے
بھلا آدمی تھا، پہ ناداں نکلا
سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے
کبھی شاعری اس کو کرنی نہ آتی
اسی بے وفا کی بدولت کرے ہے
جس جگہ بیٹھنا دکھ درد ہی گانا ہم کو
اور آتا ہی نہیں کوئی فسانہ ہم کو
کل ہر اک زلف سمجھتی رہی شانہ ہم کو
آج آئینہ دکھاتا ہے زمانہ ہم کو
عقل پھرتی ہے لیے خانہ بہ خانہ ہم کو
عشق اب تُو ہی بتا کوئی ٹھکانہ ہم کو
حقیقتوں کا جلال دیں گے، صداقتوں کا جمال دیں گے
تجھے بھی اے غمِ زمانہ! غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے
تپش پتنگوں کی بخش دیں گے، لہو چراغوں میں ڈال دیں گے
ہم ان کی محفل میں رہ گئے ہیں تو ان کی محفل سنبھال دیں گے
نہ بندۂ عقل و ہوش دیں گے، نہ اہلِ فکر و خیال دیں گے
تمہاری زلفوں کو جو درازی تمہارے آشفتہ حال دیں گے
ہم نے بے فائدہ چھیڑی غمِ ایام کی بات
کون بے کار یہاں ہے کہ سنے کام کی بات
شمع کی طرح کھڑا سوچ رہا ہے شاعر
صبح کی بات سنائے کہ کہے شام کی بات
ہم غریبوں کو تو عادت ہے جفا سہنے کی
ڈھونڈ ہی لیتے ہیں تکلیف میں آرام کی بات
دل بیتاب تک ہے، یا جہاں تم ہو وہاں تک ہے
نہیں معلوم میرے درد کی دنیا کہاں تک ہے
کبھی وابستہ کر دے گی حدودِ قید و آزادی
یہ زنجیرِ تصور جو قفس سے آشیاں تک ہے
ہوئی جب ناامیدی پِھر کہاں یہ لطف جینے کا
فریبِ زندگانی اعتبارِ دوستاں تک ہے
جب کبھی عالمِ مستی میں غزل کہتے ہیں
آج کہہ دیتے ہیں ہم، لوگ جو کل کہتے ہیں
وہ بہاتا ہے لہو، اور غزل سنتا ہے
ہم لہو گھونٹتے ہیں اور غزل کہتے ہیں
درد و غم جمع کیا میرؔ نے، ہم نے بھی کیا
وہ بھی کہتے تھے غزل، ہم بھی غزل کہتے ہیں
اور کوئی دم کی ہے مہماں گزر جائے گی رات
ڈھلتے ڈھلتے آپ اپنی موت مر جائے گی رات
زندگی میں اور بھی کچھ زہر بھر جائے گی رات
اب اگر ٹھہری، رگ و پے میں اتر جائے گی رات
ہے افق سے ایک سنگِ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ کر مانندِ آئینہ بکھر جائے گی رات
آج مئی کا پہلا دن ہے، آج کا دن مزدور کا دن ہے
ظلم و ستم کے مدِ مقابل، حوصلۂ جمہور کا دن ہے
آج کا دن ہے علم و ہنر کا، فکر و عمل کی فتح و ظفر کا
آج شکستِ ظلمتِ شب ہے، آج فروغِ نور کا دن ہے
صدیوں کے مظلوم انساں نے، آج کے دن خود کو پہچانا
آج کا دن ہے یوم انا الحق، آج کا دن منصور کا دن ہے
اے جنوں کچھ تو کھُلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں، یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پابجولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشن فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنےمستقبل میں ہوں
افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے
مجھے تو دور سویرا دکھائی پڑتا ہے
ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں
کبھی کبھی کوئی چہرہ دکھائی پڑتا ہے
چلو کہ اپنی محبت سبھی کو بانٹ آئیں
ہر ایک پیار کا بھوکا دکھائی پڑتا ہے
اپنا کوئی ملے تو گلے سے لگائیے
کیا کیا کہیں گے لوگ اسے بھول جائیے
قدموں سے چل کے پاس تو آتے ہیں غیر بھی
آپ آ رہے ہیں پاس تو کچھ دل سے آئیے
ہم دھڑکنوں کے پاس ہیں دل کے قریب ہیں
ہے شرط یہ کہ ڈھونڈ کر ہم کو دکھائیے