Thursday 19 February 2015

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانۂ گل، قیدیٔ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مئے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن مرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بَل کھائے چلو ہو
وہ شوخ ستمگر تو ستم ڈھائے چلے ہے
تم ہو کہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو ہو

کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment