Friday 20 February 2015

جاتے جاتے وہ کوئی گل تو کھلا ہی دیں گے

جاتے جاتے وہ کوئی گُل تو کھِلا ہی دیں گے
نامِ تعمیر پہ گُلشن کو تباہی دیں گے
بس یہی، بزم سے وہ ہم کو اٹھا ہی دیں گے
بات ہم بھی تو مگر اپنی سنا ہی دیں گے
اور کچھ بھی نہ سہی، اشک ستارے ہی سہی
جیسے تیسے تِری راہوں کو سجا ہی دیں گے
وقت مرہم ہے، ہر اِک زخم کو بھر دیتا ہے
بھُولتے بھُٗولتے ہم تجھ کو بھُلا ہی دیں گے
ایسی امید کسی صاحبِ ثروت سے نہ رکھ
جان اس ملک پہ جانباز سپاہی دیں گے
تجھ کو دیکھا تو نہیں پھر بھی یقیں ہے ہم کو
تیری تصویر تخیل سے بنا ہی دیں گے
دشت کو پار نہ کر پائے اگر ہم تو فصیحؔ
دشت میں خاک تو کچھ دیر اڑا ہی دیں گے

شاہین فصیح ربانی

No comments:

Post a Comment