Friday 20 February 2015

مجھ سے ناراض ہوئے دوست پرانے میرے

مجھ سے ناراض ہوئے دوست پرانے میرے
رابطے توڑ دئیے میری انا نے میرے
میری آنکھیں کسی ویران کھنڈر جیسی ہیں
لے گیا چھین کے وہ خواب سہانے میرے
ورنہ میں گردشِ دوراں سے کہاں بچتا تھا
مسئلے حل کیے سب ماں کی دعا نے میرے
ناز اس بات پہ کرتا ہوں، بجا کرتا ہوں
میرا محبوب رکھا تجھ کو خدا نے میرے
آجکل تو اسے نفرت ہے بہت روشنی سے
آئی ہو گی یہ ہوا دِیپ بجھانے میرے
ناتوانی کے سبب گو تِرے شایاں تو نہیں
پھر بھی حاضر ہیں مَرے دوست یہ شانے میرے
رزق ہو جاؤں گا مٹی کا کسی روز فصیحؔ
باقی رہ جائیں گے دنیا میں فسانے میرے

شاہین فصیح ربانی

No comments:

Post a Comment