مجھ سے ناراض ہوئے دوست پرانے میرے
رابطے توڑ دئیے میری انا نے میرے
میری آنکھیں کسی ویران کھنڈر جیسی ہیں
لے گیا چھین کے وہ خواب سہانے میرے
ورنہ میں گردشِ دوراں سے کہاں بچتا تھا
ناز اس بات پہ کرتا ہوں، بجا کرتا ہوں
میرا محبوب رکھا تجھ کو خدا نے میرے
آجکل تو اسے نفرت ہے بہت روشنی سے
آئی ہو گی یہ ہوا دِیپ بجھانے میرے
ناتوانی کے سبب گو تِرے شایاں تو نہیں
پھر بھی حاضر ہیں مَرے دوست یہ شانے میرے
رزق ہو جاؤں گا مٹی کا کسی روز فصیحؔ
باقی رہ جائیں گے دنیا میں فسانے میرے
شاہین فصیح ربانی
No comments:
Post a Comment