غم اس کے پاس ہی سے گزرنے نہیں دیا
اس کی گلی میں پاؤں بھی دھرنے نہیں دیا
آنکھیں تو ڈبڈبائیں تِری یاد میں، مگر
پلکوں پہ آنسوؤں کو اترنے نہیں دیا
دل آئینہ شکار ہوا ٹوٹ پھوٹ کا
تنکہ ہی تھام لیتے سہارے کے نام پر
موقع بھی ہم کو اتنا بھنور نے نہیں دیا
سب کے لیے ہیں اس کی برابر نوازشیں
سایہ کہاں کسی کو شجر نے نہیں دیا
انجام سے سدا وہ ڈراتا رہا مجھے
بروقت کوئی فیصلہ کرنے نہیں دیا
ہر لمحہ اس کی یاد کی جاری رہی سبیل
بے کار میں نے وقت گزرنے نہیں دیا
آئینہ رکھ کے سامنے بیٹھا تھا وہ مگر
اس کو اداسیوں نے سنورنے نہیں دیا
یوں زندگی اجاڑ پنے کا شکار ہے
خاکوں میں رنگ وقت نے بھرنے نہیں دیا
دل نے تو ساتھ میرا دعا میں دیا فصیحؔ
لیکن دعا کا ساتھ اثر نے نہیں دیا
شاہین فصیح ربانی
No comments:
Post a Comment