جب کبھی عالمِ مستی میں غزل کہتے ہیں
آج کہہ دیتے ہیں ہم، لوگ جو کل کہتے ہیں
وہ بہاتا ہے لہو، اور غزل سنتا ہے
ہم لہو گھونٹتے ہیں اور غزل کہتے ہیں
درد و غم جمع کیا میرؔ نے، ہم نے بھی کیا
وہ بھی کہتے تھے غزل، ہم بھی غزل کہتے ہیں
آزمانا ہے تو آ! بازوئے دل کی قوت
تُو بھی شمشیر اٹھا ہم بھی غزل کہتے ہیں
آج کہہ دیتے ہیں ہم، لوگ جو کل کہتے ہیں
وہ بہاتا ہے لہو، اور غزل سنتا ہے
ہم لہو گھونٹتے ہیں اور غزل کہتے ہیں
درد و غم جمع کیا میرؔ نے، ہم نے بھی کیا
وہ بھی کہتے تھے غزل، ہم بھی غزل کہتے ہیں
آزمانا ہے تو آ! بازوئے دل کی قوت
تُو بھی شمشیر اٹھا ہم بھی غزل کہتے ہیں
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment