Sunday, 1 February 2015

کرنوں کی جہاں چاپ سنائی ہمیں دے گی

کرنوں کی جہاں چاپ سنائی ہمیں دے گی
کب چاند کی نگری وہ دکھائی ہمیں دے گی
اب دور تلک پھیلی نظر آتی ہیں راہیں
اب لطفِ سفر، آبلہ پائی ہمیں دے گی
زنجیر بھی جس میں تری زلفوں کی طرح ہو
اس قید سے قسمت ہی رہائی ہمیں دے گی
اب سوچ رہے ہیں کہ وہی رات تھی بہتر
یہ صبح تو پیغامِ جدائی ہمیں دے گی
اک چوٹ جو دونوں کو برابر کی لگی ہے
محسوس تمہیں ہو گی، دکھائی ہمیں دے گی
گو ترکِ مراسم ہے قتیلؔ اس کے سبب سے
الزام مگر ساری خدائی ہمیں دے گی

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment