کرنوں کی جہاں چاپ سنائی ہمیں دے گی
کب چاند کی نگری وہ دکھائی ہمیں دے گی
اب دور تلک پھیلی نظر آتی ہیں راہیں
اب لطفِ سفر، آبلہ پائی ہمیں دے گی
زنجیر بھی جس میں تری زلفوں کی طرح ہو
اب سوچ رہے ہیں کہ وہی رات تھی بہتر
یہ صبح تو پیغامِ جدائی ہمیں دے گی
اک چوٹ جو دونوں کو برابر کی لگی ہے
محسوس تمہیں ہو گی، دکھائی ہمیں دے گی
گو ترکِ مراسم ہے قتیلؔ اس کے سبب سے
الزام مگر ساری خدائی ہمیں دے گی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment