Wednesday 18 February 2015

افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے

افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے
مجھے تو دور سویرا دکھائی پڑتا ہے
ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں
کبھی کبھی کوئی چہرہ دکھائی پڑتا ہے
چلو کہ اپنی محبت سبھی کو بانٹ آئیں
ہر ایک پیار کا بھوکا دکھائی پڑتا ہے
جو اپنی ذات سے اک انجمن کہا جائے
وہ شخص تک مجھے تنہا دکھائی پڑتا ہے
نہ کوئی خواب، نہ کوئی خلش، نہ کوئی خمار
یہ آدمی تو ادھورا دکھائی پڑتا ہے
لچک رہی ہیں شعاعوں کی سیڑھیاں پیہم
فلک سے کوئی اترتا دکھائی پڑتا ہے
چمکتی ریت پہ یہ غسلِ آفتاب تِرا
بدن تمام سنہرا دکھائی پڑتا ہے

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment