Wednesday, 18 February 2015

اور کوئی دم کی ہے مہماں گزر جائے گی رات

اور کوئی دم کی ہے مہماں گزر جائے گی رات
ڈھلتے ڈھلتے آپ اپنی موت مر جائے گی رات
زندگی میں اور بھی کچھ زہر بھر جائے گی رات
اب اگر ٹھہری، رگ و پے میں اتر جائے گی رات
ہے افق سے ایک سنگِ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ کر مانندِ آئینہ بکھر جائے گی رات
ہم تو جانے کب سے ہیں آوارۂ ظلمت، مگر
تم ٹھہر جاؤ تو پَل بھر میں گزر جائے گی رات
رات کا انجام بھی معلوم ہے مجھ کو سرورؔ
لاکھ اپنی حد سے گزرے تاسحر جائے گی رات

سرور بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment