دل بیتاب تک ہے، یا جہاں تم ہو وہاں تک ہے
نہیں معلوم میرے درد کی دنیا کہاں تک ہے
کبھی وابستہ کر دے گی حدودِ قید و آزادی
یہ زنجیرِ تصور جو قفس سے آشیاں تک ہے
ہوئی جب ناامیدی پِھر کہاں یہ لطف جینے کا
فریبِ زندگانی اعتبارِ دوستاں تک ہے
کبھی اس مرحلے سے بھی گزر جانا ہی اچھا ہے
ہراسِ امتحاں اے دوست! وقتِ امتحاں تک ہے
نہیں معلوم میرے درد کی دنیا کہاں تک ہے
کبھی وابستہ کر دے گی حدودِ قید و آزادی
یہ زنجیرِ تصور جو قفس سے آشیاں تک ہے
ہوئی جب ناامیدی پِھر کہاں یہ لطف جینے کا
فریبِ زندگانی اعتبارِ دوستاں تک ہے
کبھی اس مرحلے سے بھی گزر جانا ہی اچھا ہے
ہراسِ امتحاں اے دوست! وقتِ امتحاں تک ہے
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment