Sunday 1 February 2015

غم حیات کو حیرت میں ڈالتے رہنا

غمِ حیات کو حیرت میں ڈالتے رہنا
جہاں تلک بھی ہو ساغر اچھالتے رہنا
جلی ہوئی ہیں جو شمعیں اداس پلکوں پر
انہی سے قریۂ جان کو اجالتے رہنا
عدو سے ربط بڑھا کر بھی کب روا ٹھہرا
یہ ہم کو وعدۂ فردا پہ ٹالتے رہنا
ابھی تو بات کرو ہم سے دوستوں کی طرح
پھر اختلاف کے پہلو نکالتے رہنا
اسی میں عشق کی صحت کا راز مضمر ہے
سدا کوئی نہ کوئی روگ پالتے رہنا
قتیلؔ ایک یہی شغل ہے پسند ہمیں
خیالِ یار کو شعروں میں ڈھالتے رہنا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment