ان گیسوؤں کی چھاؤں میں دم لینا چاہیے
تپتی رُتوں میں لطفِ اِرم لینا چاہیے
ہے دُشمنِ قرار، غمِ عاشقی، مگر
جاں دے کے بھی مِلے تو یہ غم لینا چاہیے
پھیلا ہے اتنا حسن کہ اس کائنات میں
میں ہوں خدا پرست مگر کہہ رہا ہے دل
اک بوسہ جبینِ صنم لینا چاہیے
جو بھی فسادِ خلق سے واقف نہ ہو اُسے
گھر درمیانِ دیر و حرم لینا چاہیے
دیتے ہیں پھَل بدی کا جہاں نفرتوں کے پیڑ
نام اس دیا ر کا ہمیں کم لینا چاہیے
پہلے تو مہرباں تھیں بہت ہم پہ آندھیاں
اب امتحانِ ابرِ کرم لینا چاہیے
وہ چاہے کوئی ہو، مِرا فتویٰ ہے یہ قتیلؔ
ظالم سے انتقامِ ستم لینا چاہیے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment