ساری دُنیا کی نظروں میں جھُوٹے ہیں
اندرسے ہم لوگ جو ٹُوٹے پھُوٹے ہیں
کھُل کر سامنے اب آیا وہ ہرجائی
برسوں بعد پرانے قیدی چھُوٹے ہیں
کبھی نہ اُترا کوئی جن کے ساحل پر
شاید وہ راہی تھے کچھ آرام طلب
سائے جن پر بجلی بن کر ٹُوٹے ہیں
جب بھی کہیں بے مقصد جنگ کا بِگل بجا
کوکھ جلی ماؤں نے سینے کُوٹے ہیں
کیوں دیتے ہو موسم کو الزام قتیلؔ
جیسا گُلشن، ویسے ہی گُل بُوٹے ہیں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment