Sunday 1 February 2015

ساری دنیا کی نظروں میں جھوٹے ہیں

ساری دُنیا کی نظروں میں جھُوٹے ہیں 
اندرسے ہم لوگ جو ٹُوٹے پھُوٹے ہیں
کھُل کر سامنے اب آیا وہ ہرجائی
برسوں بعد پرانے قیدی چھُوٹے ہیں
کبھی نہ اُترا کوئی جن کے ساحل پر
وہ گُمنام جزیرے کس نے لُوٹے ہیں
شاید وہ راہی تھے کچھ آرام طلب
سائے جن پر بجلی بن کر ٹُوٹے ہیں
جب بھی کہیں بے مقصد جنگ کا بِگل بجا
کوکھ جلی ماؤں نے سینے کُوٹے ہیں
کیوں دیتے ہو موسم کو الزام قتیلؔ
جیسا گُلشن، ویسے ہی گُل بُوٹے ہیں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment