Thursday 19 February 2015

ہم نے بے فائدہ چھیڑی غم ایام کی بات

ہم نے بے فائدہ چھیڑی غمِ ایام کی بات
کون بے کار یہاں ہے کہ سنے کام کی بات
شمع کی طرح کھڑا سوچ رہا ہے شاعر
صبح کی بات سنائے کہ کہے شام کی بات
ہم غریبوں کو تو عادت ہے جفا سہنے کی
ڈھونڈ ہی لیتے ہیں تکلیف میں آرام کی بات
دھوپ میں خاک اڑا لیتے ہیں سائے کے لیے
پیاس لگتی ہے تو کرتے ہیں مئے و جام کی بات
اب تو ہر سمت اندھیرا ہی نظر آتا ہے
خوب پھیلی ہے تِری زلفِ سیہ فام کی بات
صبح کے وقت جو کلیوں نے چٹک کر کہہ دی
بات چھوٹی سی ہے لیکن ہے بڑے کام کی بات
کوئی کہہ دے کہ محبت میں برائی کیا ہے
یہ نہ تو کفر کی ہے بات نہ اسلام کی بات
گرچہ احباب نے سر جوڑ کے ڈھونڈا عاجزؔ
نہ ملی میری غزل میں روشِ عام کی بات 

کلیم عاجز​

No comments:

Post a Comment