Monday 23 February 2015

ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا

ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مِرے افسانے کا
ایک دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا
ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے
دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا
بُلبُلا پھر سے چلا پانی میں غوطہ کھانے
نہ سمجھنے کا اسے وقت نہ سمجھانے کا
میں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے
ایسا میٹھا تِرا انداز تھا فرمانے کا
کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے
نہ تو آنے کی خبر ہے، نہ پتہ جانے کا

گلزار

No comments:

Post a Comment