ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مِرے افسانے کا
ایک دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا
ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے
دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا
بُلبُلا پھر سے چلا پانی میں غوطہ کھانے
میں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے
ایسا میٹھا تِرا انداز تھا فرمانے کا
کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے
نہ تو آنے کی خبر ہے، نہ پتہ جانے کا
گلزار
No comments:
Post a Comment