کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا اور کانچ کے اوپر کائی بھی
تینوں تھے ہم، وہ بھی تھے، اور میں بھی تھا، تنہائی بھی
یادوں کی بوچھاڑوں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
سوندھی سوندھی لگتی ہے تب، ماضی کی رسوائی بھی
دو دو شکلیں دِکھتی ہیں اس بہکے سے آئینے میں
کتنی جلدی میلی کرتا ہے پوشاکیں، روز فلک
صبح کو رات اتاری تھی اور شام کو شب پہنائی بھی
خاموشی کا حاصل بھی اِک لمبی سی خاموشی تھی
ان کی بات سنی بھی ہم نے، اپنی بات سنائی بھی
کل ساحل پر لیٹے لیٹے، کتنی ساری باتیں کیں
آپ کا ہنکارا نہیں آیا، چاند نے بات کرائی بھی
گلزار
No comments:
Post a Comment