کسی کی قید سے آزاد ہو کے رہ گئے ہیں
تباہ ہو گئے برباد ہو کے رہ گئے ہیں
اب اور کیا ہو تمنائے وصل کا انجام
دل و دماغ تِری یاد ہو کے رہ گئے ہیں
کہیں تو قصۂ احوال مختصر یہ ہے
کسی کی یاد دلوں کا قرار ٹھہری ہے
کسی کے ذکر سے دل شاد ہو کے رہ گئے ہیں
تِرے حضور جو رشکِ بہار تھے اجمل
خراب و خوار تِرے بعد ہو کے رہ گئے ہیں
اجمل سراج
No comments:
Post a Comment