Wednesday, 4 March 2020

کسی کی قید سے آزاد ہو کے رہ گئے ہیں

کسی کی قید سے آزاد ہو کے رہ گئے ہیں
تباہ ہو گئے برباد ہو کے رہ گئے ہیں
اب اور کیا ہو تمنائے وصل کا انجام
دل و دماغ تِری یاد ہو کے رہ گئے ہیں
کہیں تو قصۂ احوال مختصر یہ ہے
ہم اپنے عشق کی روداد ہو کے رہ گئے ہیں
کسی کی یاد دلوں کا قرار ٹھہری ہے
کسی کے ذکر سے دل شاد ہو کے رہ گئے ہیں
تِرے حضور جو رشکِ بہار تھے اجمل
خراب و خوار تِرے بعد ہو کے رہ گئے ہیں

اجمل سراج

No comments:

Post a Comment