Saturday, 7 March 2020

راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے

راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے
ہم کئی بار انہیں گھبرا کے پکارے ہوتے
شعلۂ حسن کو روکا ہے نقابِ رخ نے
ابھی موتی تِرے کانوں کے شرارے ہوتے
جانتے تھے کہ اتارو گے لحد میں ہم کو
میلے کپڑے ابھی تم نے نہ اتارے ہوتے
میرے مرنے کے رہے منتظر، احسان کیا
کیوں سہی آپ نے تکلیف، سدھارے ہوتے
سامنے میرے رقیبوں کو دکھائے ابرو
آپ نے اس سے تو خنجر مجھے مارے ہوتے
ساتھ آہوں کے شبِ غم میں جو دل اڑ جاتا
آبلے اوج یہ پاتے کہ ستارے ہوتے
دُور سے بھی نہ ہوا یار کا دیدار نصیب
خیر باتیں نہ ہوئی تھیں تو اشارے ہوتے
عشق بازی نہ رہی دل جو گیا واہ رشید
دم نکل جاتا، پہ ہمت تو نہ ہارے ہوتے

رشید لکھنوی

No comments:

Post a Comment