الجھا دلِ ستم زدہ زلفِ بتاں سے آج
نازل ہوئی بلا مِرے سر پر کہاں سے آج
دو چار رشکِ ماہ بھی ہمراہ چاہییں
وعدہ ہے چاندنی میں کسی مہرباں سے آج
ہنگامِ وصل رد و بدل مجھ سے ہے عبث
قعرِ بدن میں روح پکاری یہ وقتِ نزع
مدت کے بعد اٹھتے ہیں ہم اس مکاں سے آج
کھینچی ہے چرخ نے بھی کسی مانگ کی شبیہ
ثابت ہوئی یہ بات مجھے کہکشاں سے آج
اندھیر تھا نگاہِ امانت میں شام سحر
تم چاند کی طرح نکل آئے کہاں سے آج
امانت لکھنوی
No comments:
Post a Comment