چلتی رہی اس کوچے میں تلوار ہمیشہ
لاشے ہی نکلتے رہے دو چار ہمیشہ
ہم رند ہوئے شاہدِ مقصود سے واصل
جھگڑے میں رہے کافر و دِیندار ہمیشہ
مشتاقوں نے تیرے نہ لیا کوڑیوں کے مول
ہے زلفِ مسلسل تِری یا دامِ بلا ہے
ہو رہتے ہیں دو چار گرفتار ہمیشہ
ہنگامے نئے روز ہوا کرتے ہیں برپا
فتنے ہی اٹھاتی ہے وہ رفتار ہمیشہ
اے رند جنوں میں بھی نہ صحرا کو گئے ہم
کھایا کِیے پتھر سرِ بازار ہمیشہ
رند لکھنوی
No comments:
Post a Comment